انٹرنیشنل
مودی مقبول ترین عالمی رہنما بن گئے
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے رواں برس انسٹاگرام پر مقبول ترین عالمی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس میں کسی نہ کسی حد تک بالی وڈ اداکارہ انوشکا شرما اور ان کے شوہر کرکٹر ویرات کوہلی کا بھی ہاتھ ہے
انسٹاگرام پر انوشکا اور ویرات کے ہمراہ تصویر شیئر کرنے کے بعد ہی مودی جی کے فالوورز کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ اس فوٹو شیئرنگ ایپ پر توجہ مرکوز کروانے والے دنیا کے مقبول لیڈر بن گئے۔
عالمی مواصلاتی ایجنسی بی سی ڈبلیو (Burson Cohn & Wolfe) کے ایک سروے کے مطابق انسٹاگرام پر رواں برس کے مقبول ترین لیڈر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔
سروے کے مطابق بھارتی وزیراعظم نے انوشکا اور ویرات کے ساتھ لی گئی ایک تصویر پوسٹ کی، جس پر 18,34,707 لائکس موصول ہوئے۔
اگرچہ یہ تصویر گذشتہ برس کے بالکل آخر میں پوسٹ کی گئی تھی، لیکن اسی کی بدولت رواں برس نریندر مودی کے فالوورز میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کے دوران برفیلے پہاڑوں پر لی گئی مودی کی ایک اور تصویر نے بھی صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی، جس پر انہیں 16،36،942 لائکس ملے۔
فی الوقت بھارتی وزیراعظم کے انسٹا فالوورز کی تعداد 14.8 ملین ہے، جس نے انہیں دنیا میں انسٹاگرام کا مقبول ترین لیڈر ثابت کیا ہے۔
اسی سروے کے مطابق دوسرے نمبر پر انڈونیشیا کے صدر جو کو ودودو ہیں، جن کے فالوورز کی تعداد 12.2 ملین ہے جبکہ 10 ملین فالوورز کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تیسرے نمبر پر ہیں۔
بی سی ڈبلیو کے مطابق گزشتہ برس کے بعد سے عالمی رہنماؤں نے فیس بک کے بجائے انسٹاگرام پر زیادہ تصاویر شیئر کی ہیں۔

انٹرنیشنل
سابق بھارتی جنرل نے پلوامہ حملہ پر مودی سرکار کا پول کھول دیا
سابق بھارتی جنرل نے پلوامہ حملہ پر مودی سرکار کا پول کھولتے ہوئے ہوئے کہا کہ پاکستان پر بھارتی الزامات کی حقیقت پر خود بھارتی جنرل نے سوالات کھڑے کردیئے۔
گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج پر کار خودکش حملے کے بعد سے ہی بھارت نے بغیر تحقیقات پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے ’موسٹ فیورٹ نیشن‘ کا درجہ بھی واپس لے لیا ہے جب کہ بھارتی قیادت مسلسل پاکستان پر الزام تراشیوں میں مصروف ہے۔
ایسے میں اب پلوامہ حملے پر خود ہی بھارت سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور سابق بھارتی جنرل نے حملے پر سوال اٹھائے ہیں۔ سابق بھارتی فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) دیپندرا سنگھ ہوڈا نے اعتراف کیا کہ پلوامہ حملے میں بھارت کا ہی بارود استعمال کیا گیا۔ بھارتی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ اتنی بڑی مقدار میں بارود دراندازی کرکے اتنی دور لایا جاسکے کیوں کہ حملے میں ساڑھے سات سو پاؤنڈ بارود استعمال کیا گیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈی ایس ہوڈا نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس حملے کے بعد گہری سوچ بچار کے ساتھ تمام حقائق کا جائزہ لیا جائے گا اور اس پر غور کیا جائے کہ کشمیر کے مسئلے کے مستقل حل کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب معروف بھارتی سماجی و مذہبی رہنما سوامی اگنی ویش نے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت حالات خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے تاکہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ووٹ بٹورسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مودی نے سرجیکل اسٹرائیک اور فوجیوں کو اپنے سیاسی مقصد کیلئے استعمال کیا ہے اور مخصوص جماعت ووٹ لینے کیلئے لوگوں کے جذبات کا استحصال کررہی ہے۔ سوامی اگنی ویش کے مطابق کشمیری تاجروں اور طلباء پر حملے کرنے والے بھارت کے خیرخواہ نہیں ہیں بلکہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں کارخودکش حملے میں 45 سے زائد بھارتی فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
انٹرنیشنل
امریکہ میں ایمرجنسی، ٹرمپ ایک اور مشکل میں گرفتار
ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے اعلان کے بعد پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے اور انہیں اپنے فیصلے پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے پریس ریلیز میں امریکی صدر کی جانب سے جنوبی سرحد پر ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے ایک گھنٹے بعد ہی امریکی سول لبرٹیز یونین نے اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا تھا۔اس اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جنوبی سرحد پر بارڈر سکیورٹی اور انسانی بحران کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر نیشنل کیورٹی کو خطرہ ہے جس کی وجہ سے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔اس فیصلے کے بعد غیرمنافع بخش امریکی واچ ڈاگ گروپ امریکی سول لبرٹیز یونین سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے ڈسٹرکٹ کولمبیا کی عدالت میں مقدمہ درج کراتے ہوئے اس اعلامیے کو معطل کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی محکمہ دفاع کو اس اعلامیے سے باز رکھے اور دیوار کی تعمیر کے لیے مختص رقم کہیں اور خرچ نہ کی جائے۔ایوان کے سپیکر نینسی پلوسی اور دیگر ڈپلومیٹک ریاستوں کے اٹارنی جنرلز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ بھی اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔اس نئی قانونی جنگ سے دو معاملات کے التوا میں جانے کا امکان ہے۔ پہلی تو یہ کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے قومی ایمرجنسی نافذ کر سکتے ہیں جبکہ کانگریس نے اس کام کے لیے مطلوبہ رقم جاری کرنے سے انکار کردیا ہو اور کیا ٹرمپ وفاقی قانون کے تحت ایمرجنسی لگا سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے بیان میں بھی کہا تھا؟۔
کیا محکمہ دفاع دیوار کی تعمیر کے لیے فوج کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے کانگریس کی جانب سے منظور شدہ رقم سے تعمیر کی جائے گی؟ پینٹاگون نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ اس سے کن منصوبوں پر اثر پڑے گا۔البتہ کئی ہفتوں تک اس معاملے پر گفت و شنید کے بعد جب صدر نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تو اب انہیں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ٹرمپ نے اپنے اقدام کے لیے نیشنل ایمرجنسی ایکٹ 1976 پر انحصار کیا جسے کانگریس نے اپنایا تھا تاکہ صدر کی جانب سے نیشنل ایمرجنسی کے استعمال پر حد لگائی جا سکے۔اس ایکٹ کے تحت صدر پر یہ لازم ہے کہ وہ عوامی سطح پر کانگریس کو نیشنل ایمرجنسی کے حوالے سے مطلع کرے اور ہر چھ ماہ بعد رپورٹ کرے۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ صدر کانگریس کو نوٹس بھیج کر ہر سال اس کی تجدید بھی کر سکتے ہیں۔ایوان اور سینیٹ ایمرجنسی کے اعلامیے کو ووٹنگ کے ذریعے کالعدم قرار دے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں کم از کم دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔
قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ کو عدالتی جنگ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اعدادوشمار ان کے اس فیصلے کے خلاف جاتے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ ٹرمہ کی جانب سے گزشتہ سال معاہدے کا خاتمہ بھی ایک وجہ ہے جس سے بارڈر سیکیورٹی کے لیے 104ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل
ایرانی صدرنےخلیجی ممالک کوایسی پیشکش کردی جس پرہرکوئی
ایرانی صدرنےخلیجی ممالک کوایسی پیشکش کردی جس پرہرکوئی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ
ایرانی صدر حسن روحانی نے خطے میں قیام امن کے لیے تمام خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر حسن روحانی نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے کبھی بھی خطے میں شدت اور تناؤ پیدا نہیں کیا اور اب بھی ایران قیام امن کے لیے خطے کے تمام ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔
ایرانی صدر نے سعودی عرب کا نام لیے بغیر کہا کہ خطے میں امن کے لیے ہم مسلم ممالک ہی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں اور اگر کوئی ملک امریکا اور اسرائیل کو خطے میں امن کی ضمانت سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے، امریکا اور اسرائیل مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کے ایرانی جوہری توانائی معاہدے سے دستبرداری کے بعد اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر ایران کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
- پاکستان10 گھنٹے ago
چھٹی کا دن تبدیل کرنے کا فیصلہ
- PSL423 گھنٹے ago
لاہور قلندرز کو 7 وکٹوں سے شکست
- پاکستان24 گھنٹے ago
سعودی ولی عہد نے پاکستانیوں کوبڑی خبر سنادی
- پاکستان11 گھنٹے ago
شیخ رشید اہم دعوت سے آﺅٹ
- پاکستان11 گھنٹے ago
10 ملزمان پر فرد جرم عائد
- انٹرنیشنل9 گھنٹے ago
بھارتی شہری نے جھوٹ کا پول کھول دیا
- PSL423 گھنٹے ago
حفیظ کے پی ایس ایل سے باہر ہونے کا خدشہ
- شوبز11 گھنٹے ago
پلوامہ حملہ ۔۔ اکشے کمار کا حیران کن بیان
- شوبز11 گھنٹے ago
ہر بات بکواس ہوتی ہے
- پاکستان9 گھنٹے ago
2107 پاکستانیوں کی فوری رہائی کا حکم
- شوبز10 گھنٹے ago
سابق بوائے فرینڈ سے تعلق پر خاموشی توڑ دی
- پاکستان10 گھنٹے ago
منی لانڈرنگ کیس راولپنڈی منتقل